فادر ڈے (father day) پر تقریر بعنوان والد (باپ) کا مقام و مرتبہ
فادر ڈے (father day) پر تقریر بعنوان والد (باپ) کا مقام و مرتبہ
السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نحمده ونصلي على رسوله الكريم. أما بعد: فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم : وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا *
ماں باپ کی رضا سے رہا جو گریز پا
خوشنودی خدا کی وہ نعمت نہ پا سکا
کتنا ہے بد نصیب وہ کتنا ہے نا مراد
جو مفت میں ملی ہوئی جنت نہ پاسکا
معزز سامعین کرام اور حاضرین مجلس! میں اپنی معروضات کا آغاز اس واقعہ سے کرنا چاہتا ہوں جسے سن کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رو پڑے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بندہ نامراد آیا اور اپنے باپ کی شکایت کرنے لگا کہ وہ جب بھی چاہتے ہیں میرا مال لے لیتے ہیں ۔ سرکار دوعالی علیہ وسلم نے اس آدمی کے باپ کو بلا یا لاٹھی ٹیکتا ہوا ایک بوڑھا شخص حاضر ہوا ، آپ نے اس شخص سے تحقیق کرنا شروع فرمائی تو اس نے کہنا شروع کیا اللہ کے رسول ایک زمانہ تھا جب یہ کمزور اور بے بس تھا اور مجھ میں طاقت تھی ، اور میں مال دار تھا اور یہ خالی ہاتھ تھا، میں نے بھی اس کو اپنی چیز کے لینے سے نہیں روکا آج میں کمزور ہوں اور یہ تندرست وقوی ہے، میں خالی ہاتھ ہوں اور یہ مال دار ہے، اب میں اپنامال مجھ سے بچ بچا کر رکھتا ہے،اس ضعیف کی بات سن کر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور ولد ناخلف سے مخاطب ہوکر فرمایا تو اور تیرامال سب تیرے باپ کا ہے۔
حضرات! یہ جملہ نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنا مال اپنے والدین سے چھپا چھپا کر رکھتے ہیں ۔ جو والدین کے علاج پر خرچ نہیں کرتے جو ماں اور باپ کو اپنے گھر میں ایک زائد اور ازکار رفتہ شئی سمجھتے ہیں۔
سامعین کرام ! ’ماں اور باپ‘ ان الفاظ میں شہد کی سی حلاوت اور دنیا بھر کا سکون بھرا ہوا ہے ۔ ماں کے پیروں تلے جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے ، ماں کی انگلیاں جب ہمارے سروں پر ہوتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا کی ساری خوشی ہمارے سروں پر رقص کر رہی ہے اور باپ کی پر از شفقت نگاہ عزائم میں حوصلہ وجلا عطا کرتی ہے ۔ دنیامیں ہر چیز اپنی شکل بدل دیتی ہے لیکن ماں اور اس کی ممتا میں کچھ فرق نہیں آتا ۔ دنیا کا کوئی رشتہ والد مین سے زیادہ محترم نہیں ۔ والدین کے لئے سب سے خوب صورت چیز اولاد ہوتی ہے اور جس طرح پھول مسل دینے کے بعد بھی خوشبود بیتا ہے والد مین بھی ہر حال میں دعائیں دیتے ہیں۔
اے لوگو! والدین سے ہمدردی کی توقع رکھنے کے بجاۓ والدین کے ہمدرد بن جاؤ، خالق کائنات نے اپنی بندگی کے بعد بندوں پر سب سے اولین فرض و بالوالدين إحسانا قرار دیا ہے ۔ کہا گیا والدین سے حسن سلوک کرو ۔اور ہاں ! حسن سلوک کی توفیق کو دونوں جہاں کی سعادت سمجھو، ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کو ہجرت و جہاد پر فضیلت دی ہے۔اسلام نے تو ہمیں یہاں تک اجازت دی ہے کہ اگر ماں باپ کافر و مشرک ہوں تو بھی ان سے حسن سلوک کرتے رہو، مجھے بتاؤ کہ ایس عظیم الشان تعلیم کسی اور مذہب نے دی ہے مگر آہ!
غافل رہا حقوق و فرائض سے جو بشر
دنیا و آخرت میں وہ راحت نہ پاسکا “
اے مریم کا نام لینے والو! ذرا اس در یتیم کے عمل کوتو دیکھو جس نے اپنی رضاعی ماں کے احترام میں اپنی رداۓ مبارک بچھادی اور اپنی جگہ اپنی رضاعی ماں کو بٹھادیا۔ جی ہاں! اسی در یتیم نے فرمایا خدا کی خوشنودی اور ناراضی والدین کی ناراضی و خوشنودی میں ہے۔
اے والدین کے احترام کو پامال کرنے والو!
جاؤ کسی یتیم سے ماں باپ کی قیمت پوچھو۔ کیا ماں باپ کو ناراض کر کے جنت کی اور اپنی اولاد سے خدمت کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں اسلام نے تو تعلیم دی کہ ماں باپ کے عظیم احسانات کے پیش نظر ان کے وہ جائز مطالبات بھی خوشی خوشی پورے کیجئے جو آپ کے ذوق ومزاج پر گراں ہوں ۔
حاضرین! اپنی بوڑھی ماں کی خدمت و تنہائی کے باعث حضرت اویس قرنی تاجدار مدینہ کا دیدار نہ کر سکے۔ اور نہ ہی والدہ کی زندگی میں حج کی تمنا پوری ہوسکی۔ یہ سب کیوں ہوا؟ محض اس لیے کہ ان دو تاریخ ساز ہستیوں کے ہم پر گراں قدراحسانات ہیں ۔ قرآن نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوۓ خصوصیت کے ساتھ ماں کے پیہم دکھ اٹھانے اور کٹھنائیاں جھیلنے کا نقشہ کھینچا ہے۔ کہا گیا جاں نثار ماں باپ کے مقابلہ میں تمہاری خدمت وسلوک کی زیادہ مستحق ہے۔
مگر آہ! آج ہماری ماؤں کو اپنے بیٹوں سے کچھ زیادہ ہی شکایات ہیں۔ آج کا نوجوان
دیکھ کر چشم سیاه زلف بتاں
بھول جاتا ہے سعادت مندیاں
اولا دکو تعلیم دی گئی کہ جو مال بھی خرچ کرو اس کے اولین حقدار والدین ہیں۔ کیا تمہیں اس آدمی کا قصہ نہیں معلوم جو ماں باپ کے سوجانے پر رات بھر ان کے سرہانے دودھ کا پیالہ لیے کھڑارہا اور اس کے بیوی بچے بھی بھوکے رہ جاتے ہیں، یہ تو والد ین کا ادنیٰ سا بھی حق ادا نہ ہوا -
جس نے نہ ماں کا حق محبت ادا کیا
وہ چین تا قیام قیامت نہ پاسکا -
اے نونہالان ملت! والدین کے شکر گزار رہے محسن کی شکر گزاری اور احسان مندی شرافت کا اولین تقاضا ہے۔ ہمارے وجود کا محسوس سبب والدین ہی ہیں اور پھر انہیں کی پرورش میں ہم شعور کو پہنچتے ہیں۔ ماں باپ کی غیر معمولی قربانی ، بے مثل جاں فشانی اور انتہائی شفقت وسر پرستی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمارا سینہ ان کی عقیدت واحسان مندی عظمت ومحبت سے سرشار ہو اور ہمارے قلب کا ریشہ ریشہ ان کاشکرگزار ہو یہی وجہ ہے کہ خدا نے تاکید فرمائی ( اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ ) کہ میری شکر گزاری کرو اور اپنے والدین کے بھی شکر گزار رہو۔
حکم دیا گیا ” اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ( فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا ) کہ تم ان کو اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑ کو اور نصیحت کی گئی (وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ) کہ ان سے احترام سے بات کیجئے، حکم کبریائی یہ بھی ہے کہ (وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ ) کہ عاجزی اور نرمی سے ان کے سامنے بچھے رہو یعنی نہ ان سے آگے آگے چلو اور نہ ان سے پہلے بیٹھو، یہ بھی تعلیم قرآنی ہے کہ والدین کے حق میں دعا کرتے رہے۔ ( رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ) ۔اے میرے پروردگاران دونوں پر رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی تھی۔
اے سعادت مند انسانو!
والدین کی خدمت کو اپنا طرۂ امتیاز بنالو کیوں کہ دنیا میں خدا اور رسول کے بعد قابل احترام ہستیاں یہی ہیں جس طرح درخت پتھر کھا کر پھل دیتا ہے اسی طرح والدین سارے دکھ در جھیل کر بھی اپنے بچوں کو دعائیں دیتے ہیں ، یہ وہ مالی ہیں جو اپنے چمن کو خزاں سے بچا بچا کر اپنے خون پسینے سے سینچتے ہیں ۔ اور اپنے پھولوں کو ہر خزاں وہ بہار سے آگاہ کرتے ہیں، یہ بچوں کے لیے آسمانی تحفہ ہیں۔
حضرات! ہماری آنکھوں کے سامنے ان کا وجود باعث زحمت نہیں بل کہ باعث رحمت ہے ۔ان کی زندگی ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے ۔ تو کیوں نہ ہم ان کی قدروعظمت کو دل وجان سے قبول کریں ۔
اے ضیاء ماں باپ کے ساۓ کی ناقدری نہ کر
دھوپ کاٹے گی بہت ، جب شجر کٹ جاۓ گا
وآخر دعوانا لو الحمد لله رب العالمين
والسلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ